

مصظفے نے کہا: آج ہم اپنی نظمیں بنائیں! عائشہ نے تالی بجائی: ہاں، تال کے ساتھ مزہ آئے گا۔ وہ دونوں باغ کے بڑے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ ہوا سرسرائی، پتے نرم نرم ناچنے لگے۔ انہوں نے مل کر الفاظ گنگنائے اور چمکتے قافیے ڈھونڈے۔

عائشہ بولی: روشنی، خوشی، ہنسی—کیا خوب قافیہ! مصظفے نے ہنستے ہوئے کہا: تتلی، پتلی، بادل کی چھتلی! دونوں ہنسے اور اپنی رنگین کاپیاں کھولیں۔ قلم چلنے لگا، گیت بنتا گیا، خیال چمکا۔ وہ ہر مصرعے پر تال دیتے، گاتے، اور خوشی سے جھومتے رہے۔

اچانک ہوا تیز چلی اور صفحے اڑ گئے۔ مصظفے نے پکارا: رکو، ہماری نظم! عائشہ دوڑی اور بولی: دوڑو، پکڑو، بس نہ چھوڑو! انہوں نے تال بانٹی، قدموں کی دھمک رکھی، اور سمت سنبھالی۔ صفحات لوٹ آئے، جیسے نظم نے پیار سے واپس بلایا۔

انہوں نے درختوں کے سامنے کھڑے ہو کر پوری نظم خوشی سے سنائی۔ مصظفے نے کہا: ہماری آواز ہوا کے ساتھ ناچی اور دور تک گئی۔ عائشہ نے جھک کر سلام کیا: نظم دوستی ہے۔ تال، قافیہ، اور ہنسی نے دل بھر دیا۔ وہ گھر کی راہ گنگناتے نکلے، نئی اور خوبصورت نظم سوچتے ہوئے۔